دوری جدول

کسی بھی کیمسٹری کی لیبارٹری میں داخل ہو جائیں وہاں آپ کو ایک چیز ضرور نظر آئے گی اور وہ ہے پیریاڈک ٹیبل یا دوری جدول۔
بظاہر تو پیریاڈک ٹیبل ایک حاضری کے رجسٹر کی طرح لگتا ہے۔ جہاں تمام عناصر کے حاضر ہونے یا موجود ہونے کی اطلاع ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے یہ ٹیبل اس سے کہیں زیادہ معلومات رکھتا ہے اور اس کی وجہ اس میں عناصر کو ترتیب دیتے وقت انکی خصوصیات کے اتار چڑھاؤ کو مد نظر رکھنا ہے۔
انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں ارتقائی طریقے سے چیزیں سیکھیں اور انہیں آگے بڑھایا ۔ یہی ، سب کچھ پیریاڈک ٹیبل کو ترتیب دینے کے دوران ہوا۔
لوائزے وہ پہلا شخص تھا جس نے ایسی اشیاء کی لسٹ دی جنہیں مزید نہیں توڑا جا سکتا تھا۔ اس نے انہیں عناصر کہا۔ اس لسٹ میں نائٹروجن، ہائیڈروجن، فاسفورس، مرکری یعنی پارہ، زنک یعنی جست اور سلفر یعنی گندھک کے علاوہ روشنی اور حرارت بھی شامل ہیں۔ جنہیں اس نے مادہ اشیاء سمجھا۔ اس لسٹ میں عناصر کو صرف دھات یا غیر دھات کے طور پہ لیا گیا اس لئے یہ ایک مکمل تجزیہ نہیں تھا۔ اس وقت کے دیگر کیمیاء دانوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔

ڈابیرینر نے ایک ابتدائی کوشش کی کہ عناصر کی جماعت بندی کر دی جائے۔ اپنی اس کوشش میں اس نے معلوم کیا کہ بعض بنیادی خواص بعض عناصر دوہراتے ہیں۔ اس طرح سے ایک جیسے خواص دوہرانے والے عناصر کے اس نے گروہ بنادئیے۔ ہر گروہ میں تین ارکان تھے۔ ہر گروہ کو اس نے ٹرائیڈ کا نام دیا۔
ہر ٹرائیڈ کے درمیانی رکن کا ایٹمی وزن باقی دو کے اوزان کا اوسط تھا۔
اسکے کچھ گروہوں کی مثال ذیل میں ہے۔
1
کلورین، برومین، آئیوڈین
2
کیلشیئم، اسٹرونشیئم، بیریئم
3
سلفر، سیلینیئم، ٹیلیریئم
4
لیتھیئم، سوڈیئم، پوٹاشیئم

1869تک تریسٹھ عناصر دریافت ہو چکے تھے۔ عناصر کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی ان میں دوہرائے جانے والے رجحانات بھی زیادہ واضح ہوکر سامنے آئے اور اس طرح سائینسدانوں نے انکی درجہ بندی پہ غور کرنا شروع کیا۔
الیکزینڈر ایمائیل وہ پہلا شخص تھا جس نے اس چیز پہ توجہ کی کہ مختلف عناصر اپنی خصوصیات کو دوہراتے ہیں۔ اور اگر انہیں انکے ایٹمی وزن کے حساب سے ترتیب دیا جائے تو ایک خاص وقفے کے بعد ایسا عنصر آتا ہے جو اس خاص وقفے سے پہلے والے عنصر جیسے خواص رکھتا ہے۔ اس نے پیریاڈک ٹیبل کی ایک ابتدائی شکل بنائی۔ جو پیچ دار تھی۔ اس طرح ترتیب دیتے ہوئے ایک جیس خصوصیات رکھنے والے عناصر ایک عمودی قطار میں آگئے۔ اسکے اس چارٹ میں عناصر کے علاوہ آئینز اور دیگر مرکبات بھی تھے۔ اسکا پیپر اٹھارہ سو باسٹھ میں شائع ہوا۔ چونکہ اس میں کوئی تصویر بھی نہ تھی تو اسے اتنی پذیرائی نہ مل سکی۔
1865 میں جان نیو لینڈز نے چھپن عناصر کو جو کہ دریافت ہو چکے تھے کو گیارہ گروپس میں بانٹ دیا۔ اس نے دیکھا کہ اگر عناصر کوان کے ایٹمی اوزان کے مطابق ایک فہرست میں لکھ لیا جائے تو ہر آٹھواں یا آٹھ کا ضربی نمبر یا ملٹی پل عنصر سب سے پہلے والے عنصر جیسے خواص رکھتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم دوسری والی قطار میں لیتھیئم سے گننا شروع کریں تو اسکے بعد بی ای یعنی بریلیئم، بی یعنی بورون، سی یعنی کاربن، این یعنی نائٹروجن، او یعنی آکسیجن، ایف یعنی فلورین کے بعد این اے یعنی سوڈیئم پہ پہنچیں تو یہ لیتھیئم کے بعد ٹھیک آٹھواں عنصر ہے اور اسکے کیمیائی خواص لیتھیئم جیسے ہونگے۔ اس طرح پہلی قطار میں این اے یعنی سوڈیئم سے گننا شروع کریں تو پھر آٹھویں عنصر پوٹاشیئم پہ پہنچیں گے یعنی لیتھیئم کے حساب سے آٹھ کا دوضربی نمبرسولہواں عنصرتقریباً لیتھیئم جیسے کیمیائی خواص رکھتا ہے۔

علی ہذالقیاس۔
جان کا مذاق اڑایا گیا کہ کیا موسیقی کے سروں سے گن کر آٹھ کا گروہ بنادیا۔ دراصل اس وقت تک ویلینس بانڈ نظریہ بھی سامنے نہ آیا تھا اور نہ ہی آٹھ کا نظریہ یعنی آکٹیٹ رول  دریافت ہوا تھا۔
مینڈیلیف سترہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا، ایک روسی استاد کا بیٹا تھا۔ اس زمانے کے مروّجہ علوم یعنی کلاسیکی زبانوں میں اسکی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایک اچھا طالب علم خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ حالانکہ اسکا دماغ حساب اور سائینس میں کافی زرخیز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت کافی آزمائش سے گذرنا پڑا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد جرمنی میں اس نے کیمیاء کے مطالعے میں دو سال گذاارے اور پھر سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ یہ وہی یونیورسٹی تھی جہاں اسے گریجوایشن میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
اپنی ایک کتاب پرنسپلز آف کیمسٹری کے لئے مواد جمع کرنے کے دوران اسے خیال آیا کہ عناصر کے خاندان بنانے چاہئیں جو ایک جیسے خواص رکھتے ہیں۔ اور اس پہ غورو فکر کرتے ہوئے اس نے مختلف عناصر کے درمیان خصوصیات کی ہم آہنگی کو نوٹ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ مینڈیلیف تاش کھیلنے کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اس وقت تک کے معلوم عناصر کے کارڈز تیار کئے اور اپنے لمبے سفروں کے دوران ان سے سولیٹیئر تاش کا کھیل 'پیشنس' کھیلتا تھا۔ ہر کارڈ پہ عنصر کی علامت، ایٹمی وزن، اور نمایاں طبعی و کیمیائ خصوصیات لکھی ہوئ تھیں۔ جب اس نے ایک میز پہ ان کارڈز کو پھیلایا اور انکے ایٹمی وزن کے حساب سے ترتیب دیا تو پیریاڈک ٹیبل وجود میں آگیا۔ اٹھارہ سو انہتر میں مینڈیلیف نے اپنا کام پیریاڈک ٹیبل کے حوالے سے شائع کروایا ۔
اسکے پیش کردہ ٹیبل کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں عمودی، افقی اور وتری ہر طریقے سے ہم آہنگیت موجود تھی۔  1906ء میں اسے اس سلسلے میں نوبل پرائز ملا۔
حالانکہ اس وقت اتنی سہولیات موجود نہ تھیں کہ وہ عناصر کے بالکل صحیح اوزان معلوم کر پاتا۔ اسکے باوجود اس نے کئ عناصر کے وزن میں غلطیاں درست کیں ۔ مثلاً بریلیئم کے وزن چودہ کو صحیح کر کے نو کیا۔ اس وجہ سے بریلیئم دوسرے گروپ میں میگنیشیئم سے پہلے آگیا۔ کیوں کہ اسکی خصوصیات اس گروپ سے ہم آہنگیت دکھاتی تھِں۔ اس نے کل سترہ عناصر کو نئ جگہیں دیں اسکے پیش کردہ ٹیبل میں نامعلوم عناصر کے لئےخالی جگہیں موجود تھیں۔ اس طرح نامعلوم عناصر کے وزن اور خصوصیات کی بھی پیشن گوئی کر دی جیسے بعد میں دریافت ہونے والے عناصر گیلیئم، اسکینڈیئم اور جرمینیئم کے لئے اس نے ٹیبل میں جو جگہیں چھوڑی تھیں وہاں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان متوقع عناصر کی متوقع خصوصیات کیا ہونگیں۔ جب یہ بعد میں دریافت ہوئے تو انکی خصوصیات وہی تھیں جو مینڈلیف نے بیان کی تھیں۔
اس طرح مینڈیلیف نے دس نئے عناصر کی موجودگی کی پیشن گوئی کی۔ اسکے ٹیبل میں کچھ ٹیکنیکل خرابیاں تھیں۔ جن کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اس ٹیبل کو بنانے کے لئے ایٹمی وزن ہی کو معیار بنایا جاتا تھا۔
اسکے بنائے ہوئے ٹیبل میں کچھ خامیاں تھیں۔ ایک تو اس میں نوبل گیسز کا کوئی تصور نہ تھا اور دوسرے آئیسو ٹوپس کے بارے میں کچھ معلومات نہ تھیں۔


لوتھر میئر نے بھی عین اس وقت اپنے نتائج پیش کئے جب مینڈلیو نے کئے۔ یہ نتائج مینڈیلیف کے نتائج سے ملتے جلتے تھے۔ کچھ مئورخین کے نزدیک وہ اور مینڈیلیف اس سلسلے میں ہم پلّہ ہیں اور دونوں ہی کو بابائے پیریاڈک ٹیبل کہنا چاہئیے لیکن یہاں مینڈیلیف کو ایک برتری حاصل ہے۔ اس نے میئر کے مقابلے میں زیادہ عناصر اپنے ٹیبل میں پیش کئے اور نئے عناصر کے دریافت کی پیشن گوئی بھی کی۔ میئر اس خیال کو نہیں پا سکا۔ میئر کے علاوہ ایک اور کیمیاداں ویلیئم اوڈلنگ نے بھی مینڈلیف سے ملتا جلتا ٹیبل سن 1864 میں پیش کیا۔
اسکے بعد لارڈ ریلے کی نوبل گیسز کی دریافت نے پیریاڈک ٹیبل میں مزید تبدیلیاں پیدا کیں۔ ویلیئم رامسے نے نئے دریافت شدہ عنصر آرگن کو ہیلیئم کے ساتھ رکھنے کا مشورہ دیا۔ ان عناصر کی ویلینسی صفر تھی اس لئے اسے زیرو گروپ کا نام دیا گیا۔
بیسویں صدی کے سائنسدانوں کے اعزاز میں یہ آیا کہ وہ مینڈلیف کے ترتیب کردہ ٹیبل کی وجوہات بیان کر سکیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ عناصر ایک جیسی کیمیائی خصوصیات رکھتے ہیں۔
ردر فورڈ نے مرکزے کا چارج معلوم کر کے اطلاع دی کہ نیوکیئر چارج اور ایٹمی وزن کے درمیان ایک راست تعلق ہوتا ہے۔ یعنی ایٹمی وزن کے بڑھنے سے ایٹمی چارج بڑھے گا اور کم ہونے سے کم ہوگا۔
ہنری موزلے نے انیس سو تیرہ میں ایک تجربے کے نتیجے میں بتایا کہ ایٹمی نمبر اور عناصرایکس رے طول موج کے درمیان تعلق ہے۔ اور اس طرح یہ ہوا کہ ایٹمی چارج کو ناپا جا سکتا ہے۔ یعنی ایٹمی نمبر معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی آئسوٹوپ کی دریافت ہوتی ہے اور یہ بات پتہ چلتی ہے کہ یہ دراصل ایٹمی وزن نہیں ہے جو عناصر کی کیمیائی خواص کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس میں ایٹمی نمبر کا عمل دخل ہے۔ کیونکہ آئیسو ٹوپ ایک ہی عنصر کے ایٹم ہوتے ہیں جنکا ایٹمی نمبر ایک جیسا ہوتا ہے مگر ایٹمی وزن مختلف ہوتا ہے۔
 مینڈلیف تک جتنے بھی سائنسداں تھے سب ایٹمی وزن کے حساب سے پیریاڈک ٹیبل میں عناصر کو ترتیب دے رہے تھے تو اس موڑ پہ پیریاڈک ٹیبل کی ترتیب میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔
یہ سوال کہ کیوں عناصر خصوصیات کو دوہراتے ہیں اسکا جواب اس وقت ملا جب عناصر کی الیکٹرونی تشکیل کرنا ممکن ہوئی یعنی مختلف آربٹلز میں یا مداروں میں الیکٹرون کی موجودگی اور انکی تقسیم۔ اور یہ سب ممکن بنایا نیلس بوہر نے جس نے جی این لیوس کی دریافت الیکٹرونی جوڑوں کی تشکیل سے مدد لی۔ اسے اس وجہ سے نوبل پرائز بھی دیا گیا۔ نیچے دی گئ تصویر میں کچھ عناصر کی الیکٹرونی تشکیل دی گئی ہے۔




پیریاڈک ٹیبل میں آخری اہم تبدیلیاں بیسویں صدی کے وسط میں پلوٹونیئم کی دریافت کے بعد ہوئیں جو گلین سیبورگ نے 1940 میں کیں۔ اس نے مینڈلیف کے ٹیبل میں تبدیلی کر کے ایکٹینائیڈ سیریز کو لینتھینائیڈ سیریز کے نیچے جگہ دی۔ انیس سو اکیاون میں اسے نوبل پرائز دیا گیا۔ اور ایک سو چھیویں عنصر کو اس کا نام دیا گیا یعنی سی بورگیئم جسکی علامت ہے ایس جی۔ Seaborgium (Sg)