اردو زبان کا ارتقاء

یہ وہ موضوع ہے جس پہ تحقیق دانوں نے اپنے طور پہ کافی اندازے لگانے کی کوشش کی۔ کچھ عرصے قبل یہ دعوی پڑھا کہ اردو نے دراصل پنجابی سے جنم لیا ہے تو میں نے اپنی ایک دوست سے جو اردو ادب میں ماسٹرز کر چکی ہے اور کراچی کے ادبی افق پہ مصروف اور سرگرم ہیں ان سے یہ سوال کیا۔ کئ ادبی محافل میں مختلف ادباء سے یہ پوچھا اور جواب ملا کہ بھئ ہر علاقے کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ انکے علاقے کی زبان ہے۔ اسکی وجہ اس زبان کی ہمہ گیریت ہے۔ میں نے انکی تحریر پہ بھی اسی قسم کے تبصرے کی کوشش کی مگر انہوں نے اس وقت اسے خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔
اب مزید بلاگرز نے اس قسم کے ثقافتی تسلط میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ تو میں نے سوچا کہ ڈاکٹر انور سدید کا یہ اقتباس سب کو ضرور پڑھنا چاہئیے۔ یہ مجھ جیسے کسی شخص نے نہیں بلکہ انہی کے درمیان کے ایک شخص نے لکھا ہے جو اس وقت اپنی عمر کی آٹھویں دہائ میں ہے لیکن ان لوگوں کی بد قسمتی کہ یہ شخص بھی ایک علم دریاءو ہے جو انہیں راس نہیں آتے۔
ڈاکٹر انور سدید نے جامعہ پنجاب سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انکی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' دراصل انکا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے جو انیس سو پچاسی میں منظر عام پہ آیا اور اپنی مقبولیت کی وجہ سے اسکے اب تک چار ایڈیشن آچکے ہیں۔ یہ اسوقت پاکستان کی تمام جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ اردوکے ارتقاء کے بارے میں اس کتاب میں کیا کہتے ہیں۔
مغلوں کی آمد سے پہلے مسلمان سلاطین نے قریباً دو سو سال تک اکناف ہند پر حکومت کی اور دہلی کو جہاں پہلے ترک شہ سواروں نے ڈیرے ڈالے تھے اتنی اہمیت حاصل ہو گئ کہ مسلمانوں نے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا اور ترکوں کی یہ چھاءونی علم و ادب کا مرکز بن گئ۔ اس عرصے میں مسلمانوں اور مقامی باشندوں میں اختلاط کا سلسلہ غیر محسوس طور پہ جاری ہوا اور اس ادغام کا ایک غیر معمولی نتیجہ اردو زبان تھی۔ بقول حافظ محمود شیرانی
اردو کی داغ بیل اس دن پڑنی شروع ہو گئ تھی جس دن سے مسلمانوں نے ہندوستان میں آ کر توطن اختیار کیا۔
یہ نا موسوم یعنی بغیر نام کی زبان ہر علاقے میں مقامی بولی کے نام سے پہچانی گئ۔ چنانچہ شاہ میراں جی شمس العشاق نے اسے ہندی کا نام دیا امیر خسرو نے غرۃ الکمال میں مسعود سعد سلمان کے ہندوی دیوان کا تذکرہ کیا ہے۔ ملا وجہی نے سب رس میں اردو کو زبان ہندوستان کہا ہے۔ شاہ ملک بیجا پوری نے اسے دکنی اور محمد امین نے مثنوی یوسف زلیخا میں اسےگوجری سے موسوم کیا ہے یعنی گوجری کا نام دیا ہے۔ شیخ خوب محمد اسے گجراتی بولی کہتے ہیں۔ شیخ باجن نے اسے زبان دہلوی قرار دیا۔ مرور ایام سے زبان کے لئے ریختہ کا لفظ استعمال ہوا اور میر و غالب کے زمانے میں مروج رہا۔ اسی لئے غالب نے کہا
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئ میر بھی تھا
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اردو اگرچہ بے نام اور بے عنوان تھی لیکن سماجی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وسیع علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ چنانچہ اردو کے ارتقائ خاکے میں جو اولین نقوش نظر آتے ہیں ان میں پنجاب ، سندھ، گجرات، دکن، راجستھان اور گونڈیانہ وغیرہ کے بہت سارے الفاظ موجود ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے رگ وید کو اردو کی تاریخ کا پہلا سرا قرار دیا ہے۔ اور یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ اس زبان کا خام مواد مقامی بولیوں کی صورت میں رگ وید کے زمانے میں بھی موجود تھا۔ عربی کے الفاظ عرب تاجروں اور مسلمان فاتحین کی بدولت ہندوستان میں در آمد ہوئے اور جب مسلمان فاتحین دلی کی طرف بڑھے تو ان الفاظ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
دلی چونکہ مسلمانوں کا پایہ ء تخت تھا اس لئے یہی مقام اردو کا بھی دارلخلافہ قرار پایا۔ علاءوالدین خلجی کی فتح دکن اور محمد تغلق کے دارالخلافے کی تبدیلی سے یہ اثرات جنوب میں پہنچے اور ایک مخلوط زبان وجود میں آگئ۔ جسکے اولین شعراء میں مسعود سعد سلمان لاہوری، فرید گنج شکر، بو علی قلندر، امیر خسرو، اور قطبن وغیرہ شامل تھے۔ چنانہ سید سلمان ندوی کے اس نظرئیے سے انکار ممکن نہیں کہ
یہ مخلوط زبان سندھ، گجرات۔ دکن، پنجاب اور بنگال ہر جگہ کی صوبائ زبانوں سے مل کر ہر صوبہ میں الگ الگ پیدا ہوئ، یہ کسی ایک قوم یا زبان کا نہیں بلکہ مختلف قوموں اور زبانوں کے میل جول کا ایک ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے۔ اور غوریوں ، خلجیوں اور تغلقوں کے زمانے میں پیدا ہو چکی تھی


مسلمانوں کی زبان اور ہندوستان کی مختلف بولیوں میں جب ایک اٹوٹ رشتہ قائم ہوا تو ایک مشترک زبان وجود میں آئی۔ اس نئی زبان کو باقاعدہ زبان بننے کے لیے سینکڑوں برس کی مسافت طے کرنا اور اہلِ ہند کے ساتھ مختلف علاقوں میں ہجرت کرنا پڑی

یہ زبان مختلف علاقوں اور مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے منسوب ہوتی رہی اور آخر کار طویل سفر کے بعد اُردو زبان کہلائی ۔ اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ہندوستاں میں دُھوم ہماری زبان کی ہے-

ڈاکٹر اعجاز حسین لکھتے ہیں: ’’ دو یا کئی زبانوں کے میل جول سے کبھی کبھی ایک نئی زبان پیدا ہو جاتی ہے مگر دو چار سال میں نہیں بلکہ صدیوں میں اُردو زبان بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں۔ عربی ، فارسی اور ہندوستانی زبانوں کے باہمی اختلاط سے اس کا ظہور وجود میں آیا ۔ ‘‘ (۶)

اُردو زبان کے مختلف نام


زبان کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں ۔ اسی طرح نام کسی کی شناخت کا بنیادی ذریعہ ہے۔ نام ہی ذریعہ ہے ۔ جس سے ہر فرد انفرادی طور پر اپنا تشخص قائم رکھے ہوئے۔ نام کی اہمیت سے ہر ذی شعور واقف ہے اور اِسی نام کی ہی بدولت ہر ذرئہ کائنات ایک الگ مقام اور پہچان رکھتا ہے ۔

جہاں تک اُردو زبان کا تعلق ہے تو ’’اُردو ‘‘ نام بھی اِس زبان میں بتدریج سفر کرتا ہوا اِس مقام تک پہنچا ۔ جس طرح اُردو کے مولد کا تعلق ہے۔ اِسی طرح اس کی وجہ تسمیہ بھی وقت اور حالات کے مطابق نئے قالب میں ڈھلتے رہے۔

اُردو کی ابتدا کی طرح اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق بھی مختلف آراء ہیں۔ رام بابو سکینہ لکھتے ہیں: ’’ زبان اُردو کے قدیم نام قدیم انگریز مؤرخ جنہوں نے ہندوستان کے حالات لکھے ہیں۔ اُردو کو لفظ ’’اندوستان‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

شروع اٹھارویں صدی کے مصنفوں نے زبانِ لاطینی میں اس کو ’’لنگو اندوستانی‘‘ اس سے پہلے کے انگریز مؤرخین اس کو ’’مورز‘‘ کہتے تھے۔ جاں گللرسٹ نے ۱۸۸۷ء میں سب سے پہلے لفظ ’’ ہندوستانی‘‘ زبانِ اُردو کے واسطے استعمال کیا اور جبھی سے یہ لفظ مروج ہو گیا گو کہ اس کا پتا بعض قدیم کتابوں میں ۱۶۱۶ء تک ملتا ہے ۔

جب کہ مسٹر پول نے سب سے پہلے اس کو استعمال کیا تھا۔ ’’اُردو معلّٰی ‘‘ کا معزز خطاب شاہجاں نے اس کو دیا۔ جب کہ زبان ادبی خدمات انجام دینے کے قابل اچھی طرح ہو گئی تھی۔۔۔۔ لفظ ریختہ زبان کے متعلق اب بہت کم استعمال ہوتا ہے ۔ ابتداء میں نظم کے واسطے بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ اس وجہ سے کہ نثر کا رواج اس زمانے میں بہت کم تھا۔ میر اور مصحفی تک کے زمانے سے اُردو کا بمقابلہ فارسی کے ’’ ہندی‘‘ کہتے تھے۔ جس سے ملک کے دیسی زبان مراد

ہندی یا ہندوی

اُردو زبان کا ایک قدیم نام ہندی یا ہندوی بھی کہلاتا ہے حافظ محمود شیرانی نے بھی ہندی یا ہندوی کو ہی اُردو کا قدیم ترین نام کہا ہے۔ ترکِ ہندوستانیم من ہندوی گویم جواب شکر مصری ندارم کز عرب گویم سُخن ( خسرو) حافظ محمود شیرانی سے لے کر ڈاکٹر سینتی کمار چیسٹر جی لسانی محققین کی اکثریت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ہندوستان کی نسبت اسے ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ کہا جاتا رہا ہے ۔


اس نام کی شہادت قدیم لغات اور ادبی تصنیفات سے بھی ملتی ہے ۔ چنانچہ (۸۱۲ھ) میں قاضی خاں بدر سے لے کر ۱۷۴۲ء میں سراج الدین خاں آرزوؔ تک سبھی قدیم لغت نویسوں نے ہندوستان کی زبان کو ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ لکھا ہے ۔ علاوہ ازیں ’’مفتاح الفضلائ‘‘ (۸۷۳ھ) اور ’’دستور الصبیاں‘‘ ۹۹۰ وغیرہ میں بھی اسے ’’ہندی‘‘ ہی کہا گیا ہے ۔

اس مقصد کے لیے بعض صوفیاء کرام کی تحریریں یا اقوال بھی کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔ چنانچہ خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی (۷۵۲ھ) شرف الدین یحیٰ منسیری (۷۷۲ھ) اور اشرفِ جہانگیر سمنانی (۸۰۸ھ) وغیرہ نے بھی ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ استعمال کیا ہے ۔

’’ہندی‘‘ نام کا تاریخی اور غالباً قدیم ترین حوالہ ’’ ترکِ بابری‘‘ (۱۵۳۰ء ۔ ۱۴۸۳) میں سے ملتا ہے ۔ جس میں بابر (وفات ۱۵۳۰ء ) نے یہ شعر ہندی کے طور پر درج کیا ہے ۔ مج کا نہ کچ ہوس مانک موتی فقرا جالنا میں بل کسد ریانی وروتی دہلی میں ۲۷ اپریل ۱۵۲۶ء کو بابر کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ ’’ قدیم دور میں ناگری خط میں لکھی جانے والی عوامی بولیاں برج بھاشا کی بنا پر ’’بھاکا‘‘ کہلاتی تھیں۔‘‘

رضا علی عابدی کہتے ہیں: ’’ یہ صحیح ہے کہ پہلے پہل اُردو کو ہندی کہا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان فاتحین شمالی درّوں سے اُتر کر جس سرزمین پر آئے تھے۔ اُسے ہند کہتے ہیں ۔ موجودہ اٹک کے پاس جس جگہ سے وہ دریائے سندھ پار کرتے تھے۔ اُس کا نام اوہند پڑ گیا تھا۔

وہیں لوگ انگلی کے اشارے سے دوسرا کنارہ دکھاتے ہوئے کہا کرتے ہوں کہ وہ ہند ہے ۔ اسی ہند کی مناسبت سے یہاں کے باشندوں کو کسی مذہب کے امتیاز کے بغیر ہندو کہا گیا ہو گیا اور اسی نسبت سے یہاں کی زبان ہندی کہلائی ۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ ’’ہندی‘‘ بذاتِ خود ہندی زبان کا لفظ نہیں ہے

ڈاکٹر سید محمد مصطفی کمال کہتے ہیں کہ فرشتہ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے ۔ دفترِ فارسی برطرف ساختہ ہندوی کرد ۔ مصطفی کمال نے متعدد مآخذ کی مدد سے بحث کر کے کہا ہے: ’’ ہندوی کو لوگوں نے ہندی کر دیا اور ہندی سے مُراد اُردو لے لی کہ اس زمانے میں ہندوی یا ہندی سے مراد کوئی بھی ہندوستانی زبان ہو سکتی تھی۔ عادل شاہیوں کے عہد میں ضلعی سطح پر مرہٹی کا استعمال ہوا ۔ جسے بعض مؤرخوں نے ہندی کا نام دے دیا

ہندی کا لفظ فارسی زبان کا ہے ۔ ہندی سے مُراد ہند میں بولی جانے والی زبان ہے ۔ ہندی کا فارسی میں مطلب ہے ۔ سیاہی مائل ، سنسکرت میں اس کا مطلب ہے چاند ۔ قدیم ہند میں رہنے والے اپنے آپ کو بہت حسین و جمیل سمجھتے تھے۔ مغربی لوگوں کی نسبت وہ بہت گورے نہیں ہوتے تھے۔ ان میں کچھ گندمی اور کچھ سیاہی مائل تھے اور اپنے علاقے کی شناخت کی بدولت ہند سے ہند و کہلائے اور اسی بدولت ان کی زبن ہندی یا ہندوی کہلائی کیونکہ دُنیا کی بیشتر زبانیں علاقائی نسبت سے موسوم ہوتی ہیں۔

ریختہ


فارسی میں ریختسن کے معنی ہیں بنانا ، ایجاد ، اختراع کرنا نئے سانچے میں ڈھالنا اور موزوں کرنا وغیرہ لیکن ہندوستانی ادب میں ریختہ کی اصطلاح کا بالکل نیا مفہوم قرار پایا۔ یعنی ہندی راگوں اور فارسی کو ملا کر ہندوستانی موسیقی میں جو اختراع عالمِ وجود میں آئی۔ اس کو ریختہ کہا گیا ۔

چنانچہ مختلف زبانوں اور بولیوں کے امتزاج کی بناء پر استعارۃً اُردو بھی ریختہ کہلائی۔ آبِ حیات میں مولانا محمد حسین آزاد کی تصریح کے بموجب: مختلف زبانوں سے اسے ریختہ کیا ہے جیسے دیوار کو اینٹ ، مٹی ، چونا ، سفیدی وغیرہ پختہ کرتے ہیں یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری پڑی، پریشان چیز چونکہ اس میں الفاظ پریشان جمع ہے ۔(ص ۲۱) زبان کے لیے ریختہ غالبا پہلی مرتبہ شہنشاہ اکبر (وفات ۱۶۰۵ئ) کے عہد میں مستعمل ہوا۔ لیکن بعدازاں بولی جانے والی زبان یا نثری کاوشوں کے لیے نہیں۔ بلکہ صرف شاعری کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔

اس کی وجہ بھی موسیقی میں کے پس منظر میںتلاش کی جا سکتی ہے کیونکہ بعض قدیم ترین غزلوں میں فارسی اور ’’ہندوی‘‘ کے امتزاج سے عجیب گنگا جمنی کیفیت پیدا کی گئی ۔ امیر خسرو کی ایک غزل نے اس ضمن میں خصوصی شہرت پائی۔ بلکہ حافظ محمود شیرانی کے خیال میں تو ’’ریختہ‘‘ کی اصطلاح امیر خسرو ہی کی ایجا ہے (مگر صرف موسیقی کے لیے ) جب کہ بعض اصحاب نے اس سے اختلاف بھی کیا ہے ۔

چنانچہ صفدر آہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے ’’امیر خسرو بحیثیت ہندی شاعر‘‘ میں لکھا: ’’ میں نے خسرو کی کسی تحریر میں ریختہ کی اصطلاح نہیں دیکھی‘‘ (ص ۶۱) ’’ تحفہ چشتیہ (۱۰۶۵ء ) از مخدوم علاؤ الدین برنائی کی شہادت کے مطابق خسرو کے زمانہ تک ریختہ کا لفظ صرف موسیقی کی اصطلاح تھی جس کے معنی تھے کسی ایک تال اور راگ میں فارسی اور ہندی فقروں کو ترتیب دینا۔ ‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ ولی اور سراج سے لے کر میر تقی میر کے عہد تک ریختہ کا لفظ شاعری کے ایک مخصوص انداز کے طور پر مقبول ہو چکا تھا۔ بقول ولی

ولی تجھ حسن کی تعریف میں جب ریختہ بولے

سُنے تو اس کو جان و دل سوں حسان عجم آ کر

میرؔ نے اپنے تذکرہ ’’نکات الشعرائ‘‘ میں ریختہ کے ضمن میں یوں لکھا: حالانکہ ریختہ کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن ان میں سے جو کچھ فقیر کو معلوم ہیں لکھی جاتی ہیں ۔ اوّل قسم وہ ہے جس کا ایک مصرع فارسی کا ہوتا ہے اور دوسرا ہندی مثلاً حضرت امیر خسرو ؒ کا وہ قطعہ جو لکھا جا چکا ہے ۔

دوسری قسم وہ ہے جس میں نصف مصرع ہندی اور نصف فارسی کا ہوتا ہے ۔ ‘‘ (ترجمہ: اے کے فاطمی ص : ۱۹۸) ریختہ کا ایک مفہوم فنِ تعمیر سے بھی متعلق ہے ۔ چنانچہ ریختہ گبیح کاری کو کہتے تھے ۔ اس لیے استعارئہ پختگی کلام کے لیے بھی بعض شعراء نے ریختہ برتا ۔ اس ضمن میں سودا کا یہ شعر بہت اچھی مثال ہے ۔ ہر بیت رکھے ہے یہ غزل ایسی ہی مضبوط سودا کوئی جوں ریختہ کے گھر پہ کر لے گچ مصحفی ؔ تک ہندوی اور ریختہ دونوں شاعری کے لیے مستعمل تھے ۔ چنانچہ

مصحفی کہتے ہیں: مصحفیؔ تو فارسی کو طاق پہ رکھ اب ہے اشعار ہندوی کا رواج کیا ریختہ کم ہے مصحفی کا بو آتی ہے اس میں فارسی کا ریختہ بھی اُردو کو ہی کہا گیا ہے ۔

اس پر حافظ محمود شیرانی نے ایک مقالہ لکھا ہے ۔ امیر خسرو فارسی موسیقی کے بہت بڑے شاعر تھے اور امیر خسرو نے اپنے علاقے میں بولی جانے والی بولیوں کے نام بھی گنوائے جن میں ایک نام ریختہ بھی ہے ۔

خسرو نے دو مختلف سُروں کے لیا اور ان کو ملا کر ایک نیا سُر بنایا۔ جس کا نام ریختہ رکھا۔ حافظ شیرانی نے اس بات سے اختلاف کیا ۔ چونکہ اُردو زبان یہاں کے مقامی زبان سے مضبوط ہوتی ہے ۔ ایک دور ایسا بھی آیا تھا۔ جب اُردو کو ریختہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

حافظ محمود شیرانی نے بحیثیت مجموعی ریختہ پر جو تبصرہ کیا وہ درج ذیل ہے: ’’ ریختہ سے ہماری مراد ایسا کلام منظوم ہے جس میں ملمع کی طرح فارسی اور ہندی کے الفاظ یا فقرے متحد ہو کر کسی خاص مقصد یا مفہوم کو ادا کریں۔

ابتدائی دور کے ریختوں میں ہندی الفاظ کی آمیزش بہت کم ہوتی ہے بلکہ بعض کے تو پورے پورے شعر میں صرف ایک لفظ ہندی کا ملتا ہے ۔ جو بھی قافیے میں نمودار ہوتا ہے ۔ ایسی نظموں کی تحریک ہزل و ظرافت اور تضننِ طبع کی خاطر شروع ہوتی ہے مگر وقت گزرنے پر یہی تحریک بڑے سنجیدہ اور اہم مقاصد کا مرکز بن جاتی ہے اور ہماری اُردو شاعری کا تمام قصر اسی کی بنیاد پر تعمیر پاتاہے اگر ریختہ کے بانی حضرت امیر خسرو مانے جائیں تو اس کی ابتداء ساتویں صدی ہجری کے ربع چہارم سے تسلیم کرنی ہو گی لیکن اگر یہ مانا جائے کہ امیر خسرو کے بعد یہ نظمیں رائج ہوئیں تو ہمیں ان کا زمانہ اسی عہد سے دو صدی بعد یعنی نویں صدی کا ربع چہام ماننا پڑے گا۔

جو شیخ باجن اور شیخ جمالی کا زمانہ ہے اور جب بہلول اور سکندر لودھی حکمران تھے۔ دسویں صدی کے ریختہ بہت کم ملتے ہیں۔ ‘‘ حافظ شیرانی نے ’’دسویں صدی ہجری کے بعض جدید دریافت شدہ ریختے ‘‘ پیش کئے ۔ ریختہ شاعری کی صنف میں مدتوں مقبول رہا ۔

واحد ایک شاعر ناسخ تھا جس نے پہلی بار اپنے شاگردوں کے لیے ریختہ کو متروک قرار دیا۔ بعض اوقات تخصیص کے لیے صرف شاعری کو ’’مراختہ‘‘ بھی کہا گیا ہے

مُور شام کے اُموری شہزادے عبدالرحمان الداخل الاول نے ہسیانیہ کو فتح کر کے یہاں مسلمان حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ یہاں عیسائیوں کی کثرت تھی ۔ مغرب کے اس علاقے کے مصنفین نے مسلمان حکمرانوں نے مور نام دیا۔ اور وہ ان کی زبن کو مُورز کہنے لگے ۔

یہ لفظ مغربی مفکرین کے ہاں اتنا زیادہ رائج ہوا کہ جب انگریز ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے بعد ہندوستان پر قابض ہو گئے تو اُنہوں نے مسلمانوں کو مُور کہنا شروع کر دیااور انہیں کی نسبت سے اُردو زبان کو مُور کہنے لگے۔ چنانچہ سینتی کمار چیسٹر جی اور گریر سن کی تحریروں میں مُور کا لفظ اُردو زبان کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ مسلمان کو مُور کرتے تھے ۔ جب ہندوستان کو فتح کیا تو اُنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ زبان کو بھی مُور کہا گیا۔

اُردو کے علاقائی نام

اُردو کے ناموں کے سلسلہ میں بیشتر محققین نے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ مختلف صوبوں اور علاقوں کی رعائیت سے اُردو دکنی ، گوجری ، پنجابی وغیرہ بھی کہلاتی ہے۔جیسا کہ شیخ بہاء الدین باجن (وفات ۹۱۲ھ) نے اپنے کلام کو ’’زبان دہلوی‘‘ کہا تھا۔

چنانچہ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’ یہ زبان (یعنی اُردو) دکن میں آئی اور اس میں دکنی الفاظ اور لہجہ داخل ہوا تو دکنی کہلائی اور گجرات میں پہنچی تو اس خصوصیت کی وجہ سے گجری اور گجراتی کہی جانے لگی۔‘‘ اور حافظ محمود شیرانی نے یوں لکھا: ’’ ایک دل چسپ امر یہ ہے کہ اہالی دکن نے اُردو کا نام دکنی رکھا۔

اہالی گجرات نے اس کا نام گجراتی یا گوجری رکھ دیا۔ لطف یہ ہے کہ خود ان ممالک کے باشندے اس کو ان ناموں سے پکارتے رہے۔ ‘‘ (پنجاب میں اُردو : ص ۶۱) اسی طرح ڈاکٹر شوکت سبزواری بھی اُردو کے دہلوی، گجروی یا گوجری اور دکنی نام گنوانے کے بعد ’’اُردو زبان کا ارتقاء ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ یہ نام اُردو کو ان مقالات کے تعلق سے دئیے گئے جہاں اوّل اوّل اُردو کو فروغ ہوا۔ ‘‘ (۱۳) (ص: ۹۴۔۹۳)

اُردو : لشکر

لفظ ’’اُردو ‘‘ ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے لشکر یا چھاؤنی ۔ اُردو لفظ بھی ترکی لشکر کے ساتھ ہی یہاں آیا ۔ چنگیز خاں کے دور میں ترکستان ، خراسان اور افغانستان کو فتح کر لیا۔ سمر قند، بخارا، بلغ، طوس ، ہرات ، نیشاپور اور خوارزم وغیرہ وہ چند مثالیں ہیں جہاں یہ خونی ہولی کھیلی گئی۔


اسی قیامت ِ عظمیٰ کی بدولت لفظ ’’ اُردو‘‘ ایشیا اور یورپ کی مختلف زبانوں میں داخل ہوتاہے۔ حافظ محمود شیرانی لکھتے ہیں: ’’ یہ لفظ اصل ترکی میں مختلف شکلوں میں ملتا ہے ۔

یعنی اوردا، اوردہ ، اوردو اور اُردو جس کے معنی فِرودگاہ ، لشکر اور پڑاؤ نیز لشکر و حصہ لشکر ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا استعمال خیمہ، بازار لشکر ، حرم گاہ، محل و محل سرائے شاہی و قلعے پر بھی ہوتا ہے

اقوامِ مغول کسی شہری اور مدنی زندگی کی پابند نہیں تھیں۔ ان کو بسا اوقات جدید سبزہ زارون اور چشمہ سازوں کی تلاش میں یا بہ ضرورتِ جنگ و پیکار یا بہ غرض تاخت و غنیمت ایک مقام سے دوسرے مقام پر نقل مکانی کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔

وہ اپنے گلوں اور مویشیوں کے ساتھ گاڑیوں میں سفر کرتے اور ان کے سفر کی محرک صحرائی جانوروں اور طیور کی آوازیں ہوتی تھیںَ جن سے شگونوں کی روشنی میں وہ اپنے خیمے برپا کرتے اور ایک مقام پر آباد ہو جاتے یا وہاں سے ترکِ سکونت کرتے۔ ہر خاندان کا خیمہ جداگانہ ہوتا تھا۔ جن کو ان کی اصطلاح میں ’’یورت‘ ‘ کہا جاتا تھا۔


یہ یورت اُون کے بنے ہوتے تھے۔ متعدد یورت کا مجموعہ دراصل اردو یا اول کہلاتا تھا ۔ یہی اُردو یا اول ان کی غیر متمدن زندگی کے مرجع و مرکز تھے ۔ یہی ان کے قلعے تھے اور یہی ان کے شہر ، سردار کا خیمہ غرض امتیاز سر اور دہ یعنی اردوئے مطلّا کے نام سے منسوب ہوتا تھا۔ ‘‘ (۱۴)

اُردو معلی اُردو زبان کے مختلف نام تھے۔ جو مختلف ادوار میں مستعمل رہے۔


سر زمین ہندوستان میں اس کا رواج ظہیر الدین بابر (۹۳۲ھ ۔ ۹۳۷ھ) کے زمانے سے متصور ہونا چاہیے۔ اس عہد کی تلمیح خود اس بادشاہ کی ترکی توزک میں ملتی ہے اور جلال الدین اکبر کے عہد ( ۹۶۳ھ ۔ ۱۰۱۴ھ) سے تو ہمارے مصنفین عام طور پر اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ (۱۵) اُردو کا لفظ مختلف صورتوں میں مروج تھا۔ بادشاہ کے ذاتی خیمے کو اُردوئے معلی یا اُردوئے مطلّا کہتے تھے۔

چنانچہ بابر اور اکبر کے دور میں اُن لوگوں کی بولی جانے والی شاہی زبان کو بھی اُردو نے معلی کے نام ہ سے پکارا گیا۔ حافظ شیرانی لکھتے ہیں: عہد اکبری میں بلاشک و شبہ یہ لفظ ہندوستان میں عام طور پر رواج پا چکا تھا اور اس عہد کے تمام مؤرخ بالعموم اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ترکیبی حالت میں ملتا ہے مثلاً ’’اُردوئے علیا‘‘ ، ’’اُردوئے معلی‘‘، ’’اُردوئے لشکر‘‘ ، ’’اُردوئے حضرت‘‘ ، ’’اُردو ظفر قرین ‘‘، ’’اُردوئے عالی‘‘ ، ’’اُردوئے بزرگ‘‘ وغیرہ جس سے اُن کا مقصد شاہی لشکر اور شاہی فزودگاہ ہے۔ ‘‘(۱۶) میر امن نے بھی باغ و بہار میں اُردوئے معلی کا تذکرہ کیا ہے ۔ شاہ جہاں کے دور میں یہ نام شاہی قلعے اور شاہی دربار سے وابستہ لوگوں نے عوام سے مقبولیت حاصل کی اور اپنی زبان کو بھی زبانِ معلی کہا ۔

ویسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کافی عرصہ تک ’’اُردوئے معلی ‘‘ صرف دارالحکومت سے ہی مخصوص رہی کیونکہ سراج الدین علی خاں آرزو (۱۷۴۶ئ۔ ۱۶۸۹ئ) نے اپنی مشہور لغت ’’نوادرالالفاظ‘‘ میں جن زبانوں کا ذکر کیاگیا ان میں ایک زبان یہ بھی ہے۔

’ زبان اُردو یا اُردوئے معلی یا زبان شاہ جہاں آباد یا اصطلاح شاہ جہاں یا اہلِ اُردو یا ہندی فصحا۔‘ ‘

اس تعریف سے لغت میں اُردو مترادفات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ یہ شاہی علاقہ جات اور شاہ جہاں آباد سے ہی مخصوص تھی۔ شاید اسی لیے بعض اوقات اسے ’’زبانِ دہلوی‘‘ بھی کہا گیا ۔

اُردو بحیثیت لنگوا فرینکا مختلف زبانیں بولنے والوں میں میل جول بڑھتا ہے ۔تو ایک ایسی زبان کی ضرورت پڑتی ہے جو سب کا مشترک ذریعہ گفتگو ہو۔ جو زبان اس ضرورت کو پورا کرے۔ وہ لنگوا فرینکا کہلاتی ہے ۔ کسی ملک کی لنگوا فرینکا وہی زبان ہو سکتی ہے جو ایک طرف سادہ اور سہل جامع اور وسیع ہو تو دوسری طرف اس ملک کی مختلف زبانوں کے ساتھ اس کا لسانی اشتراک بھی ہو۔ کوئی اجنبی اور بے تعلق زبان عوامی سطح پر کبھی لنگوا فرینکا نہیں بن سکتی۔

اُردو کے متعلق تو یہ سبھی جانتے ہیں کہ ایک مخلوط زبان ہے جو مسلمانوں کے عہد میں یہیں کی ایک دیسی بولی میں دوسری اور غیر ملکی زبانوں کی آمیزش سے پیدا ہوئی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ صدیوں کے افتراک و نشتت کا شکار (ہندوستان ، اسلامی دور میں پہلی بار ایک مضبوط سیاسی مرکز کے ماتحت ایسے اجتماعی نظام کی برکتوں سے بہرہ ور ہو) جس کی بنیاد اخوت ، مساوات اور باہمی رواداری پر تھی۔

اس نظام نے ملک کے تمام باشندوں کو بلا امتیاز نسل و مذہب رشتۂ وحدت میں منسلک کر دیا ۔ دوریاں گھٹ گئیں، فاصلے کم ہو گئے اور باہمی میل موافقت کو فروغ ہوا تو ایک ایسی زبان کی ضرورت محسوس ہوئی جو مختلف مادری زبانیں رکھنے والوں میں مشترک ذریعہ افہام و تفہیم ہو۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔

یہ ضرورت ہی اُردو کی پیدائش کا باعث ہوئی گویا اُردو پیدا ہی لنگوا فرینکا کی حیثیت سے ہوئی ۔ ابتداء میں وہ محض بول چال کی زبان تھی اور اس کا حلقہ بھی محدود تھا مگر آہستہ آہستہ ادبی حیثیت اختیار کرتی گئی اور ساتھ ہی اس کا دائرہ اثر بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا ۔ تا آنکہ جغرافیائی حدود کو توڑ کر پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور تمام صوبوں کی مشترکہ زبان بن گئی۔

اُردو زبان اُردو مندرجہ بالا تمام ناموں کی منازل طے کرتی رہی اور آج اپنے خوب صورت نام ’’اُردو‘‘ کے ساتھ اپنا تشخص برقرار رکھے ہوئے ہے اور یہی وہ زبان ہے جو پاکستان کی قومی زبان ہے اور دُنیا میں بھی پہچانی جا رہی ہے ۔
’’اُردو‘‘ دُنیا کی تیسری زبان 
اقوامِ متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق آج دُنیا کی پہلی تین سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک اُردو ہے ۔ (۱۹) تو گو یا اُردو کی اہمیت سے اب کوئی بھی انکار نہیں کر سکتااور نام کوئی بھی ہو اس زبان کی اہمیت مُسلّم ہے اور پوری دُنیا میں ایک پہچان رکھتی ہے